تجزیہ

روس البلاد کراچی میں متوقع ہیٹ ویو کا خطرہ

صوبیہ عندلیب


پچاس کی دہائی کا کراچی جن لوگوں نے دیکھا ہوگا وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہاں گرمی کی موسم میں بھی ساحل سمندر سے آنے والی ہواؤں کی بدولت موسم خوشگوار رہتا تھی۔ ساحل سے نسبتا قریب عمارتوں میں لوگ پنکھے یا ائیر کنڈیشنر کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔ پھر بدلتے وقت اور شہر کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ صنعتی ترقی اور بڑھتی ہوئی تعمیرات سے موسموں کے رنگ بھی بدلنے لگے۔ ماحول دشمن میٹیریل سے تعمیر ہونے والی اور بلند قامت عمارتیں سمندر سے آتی ہواؤں کا رستہ روکنے لگیں۔ تعمیراتی مقاصد اور آباد کاری کے لئے درختوں کی بے دریغ کٹائی ہونے لگی ۔ بے ہنگم ٹریفک گاڑیاں، فیکٹریاں، ملیں اور کارخانے ہوائی آلودگی کا باعث بننے لگے ۔

عالمی موسمیاتی تبدیلی کے باعث پچھلے 100 سالوں میں عالمی سطح پر درجہ حرارت میں 15 سے 16 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان خصوصا جنوبی پاکستان ( جنوبی پنجاب ، سندھ اور بلوچستان )موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے والے علاقے ہیں۔ عروس البلاد کراچی جو کبھی اپنے معتدل موسم کے لئے مشہور تھا بد ترین موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے کراچی رواں سال کی چوتھی ہیٹ ویو کا سامنا کرچکا ہے۔اس دوران بلند ترین درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔

           

2015 میں ہیٹ ویو کا سامنا کرنے کے بعد سے کراچی انتظامیہ نے متوقع ہیٹ ویوز کے اثرات سے نپٹنے کے لئے مناسب حکمت عملی وضع کی تھی ۔ اس ہیٹ ویو کے نتیجے میں کراچی میں 1200 اموات ہوئی تھیں۔ اور گرمی کی لہر سے 50،000 کے قریب افراد شدید بیمار ہوئے۔ 5 دن تک جاری رہی یہ ملک کی تاریخ کی بد ترین ہیٹ ویوز میں سے ایک تھی۔ یہ وہ بدترین وقت تھا جب ہسپتالوں میں بستر اور ایمبولنسیں مریضوں کے لئے ناکافی ہونے لگے اور ہسپتالوں میں سے لاشیں رکھنے کی جگہ نہ تھی ۔لوگ اپنے مردوں کو دفنانے کے لئے بھی دن کی گرمی میں نہ نکل پاتے۔ کراچی قیامت صغری کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد روزے سے تھے اور جبکہ شہر میں پانی کی قلت کے ساتھ ساتھ لوڈشیڈنگ اور غیر مناسب رہائشی سہولیات بھی لوگوں کو متاثر کرنے کا باعث بنی ۔

   

وجوہات

ماہرین کے مطابق ان ہیٹ ویوز اور درجہ حرارت میں اضافے کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ اگر 2015 کی ہیٹ ویو کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لیا جائے تو کراچی میں اس وقت درجہ حرارت ملک کے دیگر حصوں کی نسبت کم تھا۔ کراچی کا درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک گیا تھا جبکہ سبی ، لاڑکانہ اور تربت میں درجہ حرارت 49 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ۔ عام طور پر سندھ کے کئی شہروں میں درجہ حرارت 50 تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ تاہم کراچی میں ہونے والے نقصان کی وجہ وہ ہیٹ پیٹرن بتائی جاتی ہے کہ جس میں گرمی ایک درجے پر آکر رک گئی تھی اس کیفیت میں گرمائش کا اخراج رات کے وقت بھی نہیں ہو پاتا ۔ شہر میں یہ کیفیت مسلسل کئی روز تک جاری رہی۔

ماہرین شہری منصوبہ بندی اس کی وجہ "اربن ہیٹ لیول" میں اضافے کو قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق جب شہری آبادی شہر کی خالی جگہوں میں پھیل باتی ہے تو اربن ہیٹ آئي لینڈ ایفیکٹ سامنے آتا ہے۔

یو, ایچ, آئی اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ کے مطابق شہری علاقوں میں گرمی کا اثر دیہی علاقوں کی نسبت زیادہ محسوس کیا جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر شہری علاقوں میں انفراسٹرکچر اور مختلف سرگرمیوں کے باعث زمین دن کے اوقات میں زیادہ گرمی جذب اور کم منعکس کرتی ہے ، رات کے وقت جب ‌زمین اس اضافی گرمی کو واپس ماحول میں خارج کرتی ہے تو یہ علاقہ دن اور رات، دونوں اوقات میں گرم محسوس ہوتا ہے۔

کراچی میں 17 سے 24 جون کے دوران شدید گرمی سے ہونے والی 1200 افراد کی ہلاکتوں کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ جو موسمیاتی تبدیلی کی تحقیقاتی ٹیم نے جاری کی ، اس میں بھی بتایا گیا کہ ہلاکتوں کی وجہ (یو ایچ آئی) اربن ہیٹ آئی لینڈ ان کی موت کی دجہ بنی اور مرنے والوں نے 44 درجہ حرارت کو 66 سینٹی گریڈ محسوس کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ میٹروپولیٹن میں منصوبہ بندی کے بغیر تعمیرات اور بلندد و بالا عمارتوں کے ساتھ ساتھ سڑکوں کی تعمیر بے ہنگم ٹریفک اور پھیلتی ہوئی آبادی اور صنعتوں کی بہتات ملتی ہے جب کہ ماحول دوست عناصر کی کمی۔

گرین ہاؤس گیسیں کے زیادہ اخراج بھی فضا میں گرمی کو بڑھاتا ہے۔ گرین ہاؤس گیس ایفیکٹ سے گرمائش ایک جگہ پر قید ہو کر رہ جاتی ہے۔ معمول کے مطابق جذب شدہ گرمی زمین سے دوبارہ جب خارج ہوکر آسمان کی طرف جاتی ہے، وہ آلودگی اور گرین ہاؤس گیسوں کی وجہ سے فضاء میں ہی پھنس کر رہ جاتی ہے جس کے نتیجے میں درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اضافے سے بھی گرمی بڑھ رہی ہے۔ یہ سب عوامل مل کر گرمی کے اخراج میں رکاوٹ بنتے ہیں جس سے گرم جزیرے جیسی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔

محکمۂ موسمیات کے مطابق موسم گرما میں شہر میں سمندری ہوائیں بند ہو جاتی ہیں جب کہ نمی کا تناسب بھی انتہائی کم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے فضا میں حبس ہوتا اور شہریوں کو گرمی کی شدت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔

کراچی میں ہیٹ ویو کے اثرات سے نپٹنے کے انتظامات

اس اندوہناک قدرتی آفت سے نکلنے کے بعد کراچی انتظامیہ نے اس حالات سے نمٹنے کے لئے جو حکمت عملی وضع کی گئی اس کا جائزہ لیں تو اس "ہیٹ ایکشن پلان " منصوبے کا مقصد خطرے کی زد میں موجود علاقوں کی حفاظت کے لئے ان علاقوں کے لوگوں کو درجہ حرارت میں اضافے اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہ کرنا شامل ہے۔یہ ایک تین سطحی تنبیہات پر مشتمل منصوبہ ہے جس میں درجہ حرارت میں اضافہ سے متعلق مشاورتی پیغامات (پیلا رنگ)، تنبیہات (نارنگی رنگ) اور ہنگامی صورتحال (لال رنگ) شامل ہيں ۔

           

منصوبہ نہایت احتیاط سے تیار کیا گیا ہے اور اس میں کئی بین الاقوامی ماہرین کی بھی تجاویز شامل کی گئی ہیں جنہوں نے احمد آباد ہیٹ ایکشن پلان تیار کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت ایک ہیٹ ایمرجنسی کوآرڈی نیٹنگ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جو گرمی کے ممکنہ اثرات سے بچاؤ کے لئے لائحہ مرتب کرتی ہے۔تنبیہات کے علاوہ آگہی مہم اس منصوبے کا حصہ ہے۔

       

دیگر عملی اقدامات میں مرکزی شاہراہوں کے پاس کولنگ سینٹرز یا ہیٹ اسٹروک سینٹر کا قیام بھی شامل ہے اور ان پر ادویات اور ڈاکٹرز کی موجودگی یقینی بنائی گئی ہے۔

2015 کے بعد سے ہیٹ ویو سے متاثرین اور ہلاکتوں کی تعداد نسبتا کافی کم رہی ۔ وجہ ایک تو لوگوں کی اس آفت سے نکلنے کی آگاہی اور انتظامی اقدامات تھے۔تاہم ابھی موسم گرما کا آغاز ہے اور موسم کی شدت اس قدر غیر یقینی صورتحال اختیار کر چکی ہے کہ کراچی کے لئے ایک مربوط ڈیساسٹر مینجمنٹ سسٹم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

طویل المیعاد اقدامات

ترقی یافتہ ممالک جو قدرتی آفات کی زد میں ہوں وہ اپنا انفراسٹرکچر کا قیام اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئےکرتے ہیں۔ پاکستان میں اگرچہ قدرتی آفات سے نمٹنے کا ادارہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ قائم ہے۔ مگر انفراسٹرکچر کی مد میں کوئی ایسے مربوط اقدامات نظر نہیں آتے جو ہنگامی حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے مؤثر ہوں ۔ مختلف ماہرین اس مسئلے کے حل کے لئے چند حل تجویز کرتے ہیں

ہریالی کی ڈھال

گرمی سے بچاز کے لئے شہر میں ہریالی کی ڈھال ہونی چاہئے۔ جس کے لئے کراچی کے دیہی علا‍قوں میں زرعی کلچر کا احیا ء کرنا چاہئے۔ یہ خیال ممتاز ماہر شہری منضوبہ بندی عارف حسین نے پیش کیا ۔ انہوں نے کراچی کے اررد گرد خصوصا ملیر اور گڈاپ میں کھیتوں اور باغات اگانے پر زور دیا۔ جو ہیٹ ویو سے بچا‌ؤ کے لئے ڈھال ثابت ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں گرمی کی لہر اٹھنا کوئی نیا واقعہ نہیں۔ بلکہ ہریالی ختم ہونے کے باعث اس کے منفی اثرات بڑھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق اربنائزیشن کا بڑھتا ہوا رجحان بھی نقل مکانی اور ہریالی کے خبتمے کا باعث بن رہا ہے۔

جنگلات

کراچی میں ہونے والی حالیہ موسمی تبدیلی کی اہم وجہ درختوں کی کٹائی کو بھی سمجھا جاتا ہے چند دھائیاں پہلے کا کراچی سڑکوں کے ارد گرد درختوں اور ہریالی کے لئے منقرد تھا۔ شہر کے پھیلاؤ کے باعث بے تحاشا درخت کاٹے گئے۔ درخت اس وقت کی اہم ضرورت ہیں ۔ درخت اگا کر فضا کے درجہ حرارت میں 5 سے 6 فی صد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔

تعمیرات

تعمیراتی میٹیریل ماحول دوست ہونا چاہئے ۔ عمارتوں میں انسولیشن کا انتظام ہو اور کم گرمی جذب کرنے ووالا میٹیریل ہو۔ کنکریٹ اور پتھر سے بنی عمارتیں گرمی جذب کرتی ہیں۔ ’گرین زونز‘ تعمیر کرسکتے ہیں۔ ہوا کی مرکزی راہداریوں کی تعمیر کی جائے جن کے ذریعے تازہ ہوا باہر سے شہر میں داخل ہوتی اور آلودہ فضاء شہر کے مراکز سے باہر نکل جاتی ہے نیچر کلائمٹ چینج میں ایک رپورٹ کے مطابق شہروں میں چونکہ گرمی ذیادہ ہوتی جائے گی اور اس سے گنجان شہر گویا حرارتی جزیرے ’ ہیٹ آئی لینڈ‘ بن رہے ہیں۔ عمارتوں کو سفید رنگ دے کر یا ان کی چھتوں پر سفیدی پھیر کر اس کیفیت کو کم کیا جاسکتا ہے۔ توقع ہے کہ اس سے شہروں میں 0.8 درجے سینٹی گریڈ گرمی کم کی جاسکتی ہے۔

2021 تک دنیا میں 6 ڈگری درجہ حرارت اضافہ ہوچکا ہوگا۔ گرمی کی اس لہر کے سبب زرعی پیداوار میں کمی ، سیلابوں میں اضافہ، پانی کی کمی، گلیشیر کے پگھلنے کے واقعات میں شدت اور اضافہ دیکھا جائے گا۔ تعمیرات کی طرف خصوصی توجہ دی جائے ۔ ماحول دوست میٹیریل کے استعمال کے ساتھ گھروں اور دیگر عمارتو ں کی تعمیر اس طرز پر کی جائے جو کشادہ ہوادار ہوں ۔ قومی سطح پر اس سلسلے میں قانون سازی ہو۔ توانائی اور پانی کا حصول لازمی ہے مگر ماحول کو بچانے کے لئے اقدامات بھی لازمی ہیں۔ شجرکاری کو ہر سطح پر فروغ دینا ہوگا