2 September 2019 - قومی کانفرنس براۓ مسئلہ کشمیر: بدلتا منظر نامہ

قومی کانفرنس براۓ مسئلہ کشمیر: بدلتا منظر نامہ


سینٹرفار پیس، سکیورٹی اینڈ ڈیولپمنٹل اسٹڈیز (سی پی ایس ڈی) نے''مسئلہ کشمیر :بدلتا منظر نامہ '' کے موضوع پر قومی کانفرنس کا انعقاد کیا. صدر آزاد جموں وکشمیر سردار مسعود خان اور وفاقی وزیر برائے انسداد منشیات و سیفران شہریار خان آفریدی تقریب کے افتتاحی اور اختتامی سیشنوں میں بطور مہمان خصوصی تھے جبکہ چیئرمین پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر سید فخر امام نے تقریب میں خصوصی شرکت کی . اس تقریب میں حکومتی اہلکار، سفارتکار، دفاعی تجزیہ کا ر ، معلمین ، اور میڈیا کے دانشور وں نے مسئلہ کشمیر کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی

صدر سی پی ایس ڈی ، رٹائرڈلیفٹیننٹ جنرل آغا عمر فاروق(نشان امتیاز ملٹری) نے مقررین اور سامعین کا تقریب میں موجودگی پر خیرمقدم کیا.جنرل عمر فاروق نے اس موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالی. جنرل آغا کا کہنا تھا کہ پورا خطہ میڈیا بلیک آوٹ کا شکار ہے ہے جہاں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین ، انسانی حقوق کی تنظیمیں ، آئی این جی اوز ، این جی اوز ، میڈیا عملہ اور حتیٰ کہ بھارتی حزب اختلاف کے رہنماؤں کو بھی کشمیر کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس خطے کو جیل میں تبدیل کردیا گیا ہے جہاں لوگوں کو کھانے ، پانی اور ضروری ادویات سے محروم کر دیا گیا ہے۔ جنرل آغا نے مزید کہا کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل ۳۷۰اور ۳۵(اے)کی منسوخی، بی جے پی کی کشمیر کے جمہوری اور آبادیاتی شکل کو تبدیل کرنے کے ڈیزائن کی گواہی ہے۔

سینیٹر شیری رحمان نے کلیدی خطیب کی حیثیت سے خطاب کیا اور کہا کہ کشمیر ایک قومی مسئلہ ہے اور کشمیر پاکستان کیلئے شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے ،تمام سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر بھارت کی طرف سے کشمیر پر جابرانہ قبضہ کے خلاف کھڑی ہیں .سینیٹر شیری رحمان نے مزید کہا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق غیر قانونی ہے بھارتی یکطرفہ اقدام نے کشمیر کو مزید بین الاقوامی شکل دے دی ہے اور بلا شبہ دو ایٹمی طاقتوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔انہوں نے سابق امریکی صدر کلنٹن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ'' جو کچھ کشمیر میں ہوتا ہےاسکے اثرات صرف وادی میں نہیں رہیں گیں بلکہ خطے اور اس سے آگے کے علاقوں کوبھی گھیرے میں لیں گیں ''۔ ان کا موقف تھا کہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں بھارتی لابی کی جانب سے پاکستان کے خلاف بیانیہ قائم کیا جائے گا ، لہذا ، ہمیں مسئلہ کشمیر حل کے لئے سفارتی محاذ پر دانشمندی سے کھیلنا ہے۔

سردار مسعود خان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت اور آبادیات میں تبدیلی نہ صرف سلامتی کونسل کی قراردادوں بلکہ جنیوا کنونشنوں اور دیگر بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نےمزید کہا کہ بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ ''آج مقبوضہ کشمیر (جموں کشمیر) میں لوگ قید ہیں ، انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، قتل کیا جارہا ہے اور وہ انسانی حقوق سے یکسر محروم ہیں۔ ان حالات میں عالمی برادری کشمیریوں کی مشکلات اور دکھ و درد کو کم کرنے کے لیے کچھ بھی اقدامات نہیں کررہی ہے۔ سردار مسعود خان نے تنبیہہ کیا کہ دو جوہری پڑوسیوں کے مابین تناؤ پر عالمی برادری کی خاموشی مجرمانہ غفلت ہے اور اس کا نتیجہ نہ صرف پاکستان اور کشمیری عوام بلکہ پوری دنیا کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گا

یہ تقریب دو مرکزی سیشنز پر مشتمل تھی ۔ سابق سفیر اشرف جہانگیر قاضی نے پہلے سیشن کی صدارت کی جبکہ اردن میں سابق سفیر عارف کمال ، بھارت میں سابقہ ہائی کمشنر سفیر عبدالباسط ، اور سابق وزیر دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک (نشان امتیاز ملٹری ) نےپہلے سیشن کے دوران خیالات کا اظہار کیا ۔دوسرے سیشن کی صدارت وزیر اعظم کے معاون خصوصی جناب افتخار درانی نے کی جبکہ سابق صدر آزاد جموں وکشمیر میجر جنرل (ر) سردار محمد انور خان ، سینئر صحافی و تجزیہ کار جناب اعجاز حیدر ، اور چیئرمین کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز جناب الطاف حسین وانی نے بھی مسئلہ کشمیر کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی

پہلے سیشن کے آغاز میں ، سابق سفیربراۓاردن ،عارف کمال نے ، "کشمیر میں کشیدگی اور پاکستان پر اثرات " پر تبصرہ کیا ۔ سفیر کمال نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا''مسائل کے حل کے لئے جنگ انتخاب نہیں ہے جب تک مسلط نہیں کی جاتی '' اور یقین دہائی کرائی کہ کشمیریوں کی آزادی خواہش کو نہیں دبایا جا سکتا .ان کا مزید کہنا تھا کہ'' پاکستانیوں کا کام نہیں کہ وہ کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرہ لگائیں بلکہ یہ کشمیریوں کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کریں گے وہ کس ملک کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں''

سفیر اشرف جہانگیر قاضی نے موجودہ کشمیری بحران کا ایک جامع خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک مقامی ، لچکدار ، اور پرعزم ہے. لہذا بھارت اس کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ اس تحریک مزاحمت کا پاکستان پر بہت کم انحصار ہے جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی سوفٹ پاور آج کم و بیش مردہ ہے اور فاشسٹ اکثریتی فرقہ واریت (ہندوتوا) بھارت کے عظیم طاقت بننے کے امکانات کا دم گھٹ چکا ہے۔ سفیر قاضی کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ صورتحال کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے تناظر میں دیکھنا چایئے ،جسکی وجہ سے کشمیر کے اندر بھارت کی جانب سےکشمیری مزاحمت کو کچلنے کے لئے وادی میں نسل کشی کا سہارا لیا جا رہا ہے

سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک (ملٹری نشان امتیاز ) نے ’’خطےمیں چین اور بھارت کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ ‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ '' بھارت میں انسانوں سے زیادہ گاۓکو معاشرتی تحفظ اور عزت حاصل ہے''

ہندوستان میں سابق ہائی کمشنر ، سفیر عبدالباسط نے ، '' بھارتی اسٹریٹجک کلچر کے خطے پر اثرات '' کے موضوع پراظہار خیال کیا . انہوں نے کشمیر کے بارے میں پاکستان کی پالیسیوں کے بارے میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا ، "جب تک آپ طویل المعیاد مقاصد کے بارے میں واضح نہیں ہوجاتے ،تب تک آپ معقول سفارتی ردعمل سامنے نہیں لا سکیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت اگلے ۵۰ سالوں میں بھی کشمیریوں کے دل و دماغ نہیں جیت سکتا

دوسرے سیشن میں ، چیئرمین کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف بین الاقوامی تعلقات ، جناب الطاف حسین وانی نے کشمیریوں کے تناظر میں بیان کرتے ہوئےکہا کہ کشمیری پاکستان کو اپنا واحد حامی ملک کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جو انکو بھارتی بربریت سے بچا سکتا ہے ۔ جناب وانی نے کہا ، "جس طرح سے کشمیر میں مظالم ہورہےہیں ، یہ مزید سنگین صورتحال اختیار کر سکتے ہیں ۔ کشمیری نوجوانوں کو مزاحمت کے دوسرے ذرائع اختیارکرنے کا عزم کرنا ہوگا اور جب وہ یہ یقینی طور پر کریں گے تو آپ آزادکشمیر کی عوام اور پاکستان کے نوجوانوں کو سرحد پار مقبوضہ کشمیر جانے سے نہیں روک سکتے

صحافی اور تجزیہ کار جناب اعجاز حیدر نے کشمیر میں انسانیت سوز مداخلت کے موضوع پر اپنی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ، "کچھ معاملات میں غیر جماعتی نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے"۔ سابق صدر آزاد جموں و کشمیر(ر) میجر جنرل سردار محمد انور خان ، '' موجودہ کشمیر بحران میں پاکستان کی حکمت عملی '' پر اپنے خیالات کا اظہارکیا . وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی افتخار درانی نے '' مستقبل کےلئے حکومتی اقدامات'' کے بارے میں اپنے رائے پیش کرتے ہوئےکہا کہ''کشمیر آور''منانے کا مقصد کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ دل سے غیر مشروط مدد جاری رکھنے کی یقین دہائی کرانا ہے اور ہم اب بھی اور ہمیشہ کے لئے کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑےہیں .''کشمیر آور''سے مسئلہ کشمیر ۷۲ سال بعد سب کی توجہ کا مرکز بنا اور علم میں آیا کہ کشمیر کی حالیہ صورتحال انسانیت سوز شکل اختیار کرتی جا رہی ہے

قومی کانفرنس براۓ"مسئلہ کشمیر:بدلتا منظر نامہ ''کے موقع پر ائیر چیف مارشل (ر) سہیل امان (نشان امتیاز ملٹری ) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوۓ کہاکہ''کشمیر میں لاکھوں لوگوں کا قتل عام اور خواتین کی بےحرمتی عالمی برادری کیلئے باعث فکر نہیں جب تک انکے مفادات نہ جڑے ہوں''

وفاقی وزیر برائے انسداد منشیات و سیفران شہریار خان آفریدی نے اختتامی سیشن میں بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ کشمیر کی صورتحال قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک جامع اور متفقہ ردعمل کا مطالبہ کرتی ہے۔ شہریار خان آفریدی نے اس کانفرنس کے انعقاد کے لئے سی پی ایس ڈی اور دادا بائے فاؤنڈیشن کی کاوشوں کو سراہا۔ جناب سید فخر امام نے بھی مسئلہ کشمیر پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ تقسیم ہندو پاک کی تاریخ اور وہاں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کی بنگال اور پنجاب کی تقسیم کے بعد سے طویل تاریخ ہے۔ ددنوابی ریاستوں حیدرآباد اور جونا گڑھ کے ساتھ ، مسئلہ کشمیر کا اتفاق رائے کے مطابق فیصلہ نہیں کیا گیا کہ مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان کو دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مودی نے بھارت کے وزیر اعظم بننے کے بعد بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور کہا کہ ہم بنگلہ دیش کی تخلیق کے ذمہ دار ہیں۔ تقریب کے اختتام پر جناب محمد علی نے تقریب کی کارروائی کا خلاصہ اور رپورٹ پیش کی